فری میسن یا ایلومیناتی اور نصیر الدین ہنزائی کے پیروکار

فری میسن ایک بین الاقوامی یہودی تنظیم ہے۔ ہر ملک میں اس کے مراکز ہیں ۔اس تنظیم کا مقصد پوری دنیا پر  یہودی حکمرانی ہے ۔ بظاہر تو حکمرانی یہودیوں کے پاس نہیں ہوتی  لیکن اصل میں پیچھے بیٹھ کر اس ملک یا ادارے  کووہ ہی  کنٹرول کر رہے  ہوتے ہیں۔فری میسن اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے دنیا بھر سے کارندے بھرتی کرتا ہے  ان کارندوں کا تعلق کسی بھی مذہب ، قوم ، رنگ ، نسل یا دنیا  کے

کسی بھی حصے سےہوتا ہے اور وہ اپنے چھوٹے مفادات کے عوض ایلموناتی یا فی میسن کے بڑے مقصد کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں  ۔ گلگت بلتستان  کے ہنزہ سے جنم لینے والی تنظیم خانہ حکمت  کے افعال اور اس کے اہم عہدیداروں کا اٹلی، برطانیہ ، امریکہ ، ہندوستان اور بہت سے ملکوں میں  بیٹھ  کر  بھاری سرمایے کا پاکستان میں خرچ کرنا اور انتہائی  خفیہ تنظیم کا منظم نیٹ ورک چلانا  فری میسن کی زیلی تنظیم ہونے کی طرف صاف اشارہ ہے۔

آج دنیا  کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کے سیاست اور اسٹبلشمنٹ میں  80 فیصد یہودی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اہم اداروں  پر یہودیوں کا کنٹرول ہے ۔  اس تنظیم کی رکنیت کے کئی مدارج ہیں جو ڈگری کہلاتے ہیں۔ ہر ڈگری کی رکنیت کے لئے کچھ شرائط ہیں ۔فری میسن عام طور پر ملک کے افسران،بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان او رعہدیداران ، انتہائی اثر وسوخ کے حامل لوگوں اور مذہبی طور پر لوگوں کو جلد اپنے قابو میں لانے کی اہلیت رکھنے والے لوگوں کو اپنا رکن بناتے ہیں ۔ رکن بننے کےلئے کسی خاص رنگ، مذہب، نسل یا قومیت کی قید نہیں ہے بلکہ اس ملک کے شہریوں کو رکن بنانے کی ہمت افزائی کی جاتی ہے اور اس کے بعد منصوبے کے مطابق انہیں اپنے راہ پر لایا جاتا ہے۔ان لوگوں کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ انہیں یہ پتا بھی نہیں چلتا کہ انہیں کس مقصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ برادری کے اراکین کی درمیان زبردست جذبہ محبت اور ہمدردی پیدا کر دیاجاتا ہے۔ محض لاج کی رکنیت کسی سرکاری افسر کے لئے اس کا حقدار بنادیتی ہے کہ اسے دوسرے افسران کی مقابلے میں جلدی ترقی ملے۔
یہ تنظیم سب سے پہلے1717میں انگلستان میں قائم کی گئی تھی۔ بعد میں اس تنظیم کی چار انجمنوں (لاجوں) کا ایک گرینڈ لاج میں اتضمام کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی خفیہ اشاروں کا نیا نظام شروع کیا گیا۔ لندن کی گرینڈ لاج برطانیہ کی دوسری شاخوں کی سربراہ مقرر کی گئی۔ یہودیوں کی اس تنظیم کا اصل مقصد مختلف ممالک میں سازش اور جاسوسی کرانا ہے۔ اور مشہور یہ کیا جاتا ہے کہ یہ سماجی، مذہبی یا تفریحی کلب ہے اور اس کے ممبر آپس میں ایک دوسرے کی بے انتہاءمدد اور خیال کرتے ہیں۔ اور یہ بات کسی کے اس تنظیم کا ممبر بننے کے لئے اپنے اندر بہت بڑی کشش رکھتی ہے خصوصًا جب کہ بادشاہ، نواب، راجے مہاراجے، اعلیٰ فوجی اور شہری حکام کے پائے کے لوگ بھی اس کے رکن ہوں۔

دنیا کی تاریخ کا سب سے خفیہ تنظیم ایلومیناتی یا فری میسن  کی موجودگی پاکستان اور خصوصاًپاکستان کے ان علاقوں میں جو  بین الاقوامی طاقتوں کی مفادات کے جنکشن ہیں ، یقینی ہے۔ پاکستان کے انتہائی اہم اسٹریٹجک  اہمیت کے حامل علاقوں میں گوادر، کراچی، کشمیر، گلگت بلتستان سمیت کہیں اور علاقے شامل ہیں ۔ ان علاقوں میں اس خفیہ عالمی یہودی تنظیم کی موجودگی  یقینی ہے ۔ کیوں کہ امریکہ جو کل تک دینا میں سپر پاور تھا   آج چین اس سے وہ پوزیشن چھین رہا ہے۔ مغربی سہارا سے لے کر کر غیزستان تک اور ناروے سے لے کر جنوبی افریقہ تک چین اپنا اثر وسوخ بڑھا رہا ہے جو امریکی عالمی حکمرانی کے لئے خطرہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد روس اور امریکہ میں جنگ کا خاتمہ افغانستان میں ہوا۔ روس چاہتا تھا کہ وہ افغانستان کے بعد پاکستان کو جب فتح کرے گا تو بحرہ عرب کے گرم سمندر تک پہنچے گا اس کے بعد وہ دنیا کے تمام بر اعظموں تک رسائی کے قابل ہو جائے گا ۔ لیکن امریکہ نے پاکستان کو ساتھ ملا کر انہیں شکست دی اور روس کے 14 ٹکڑے کر دئے۔ اب چین سی پیک کی صورت میں  اسی گرم پانی کی بندرگاہ کی طرف گامزن ہے اور خوش قسمتی یا بد قسمتی سے اس منصوبے کا آغاز گلگت بلتستان سے ہو رہا ہے۔ فری میسن جو امریکہ کی صورت میں پوری دنیا کو اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے جس کے کارندے اقوام متحدہ کے اہم اداروں میں موجود ہیں اور کسی بھی عالمی فیصلے کے لئے فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں وہ چین کی رسائی بحرہ عرب تک کیسے برداشت کرسکتے ہیں ۔ لہذا سی پیک کے منصوبے  اور اس عالمی طاقتوں کی مفادات کے مرکز گلگت میں اس خفیہ یہودی تنظیم کی موجودگی کے امکانات سو فیصد ہیں ۔

پچھلے کہیں سالوں سے گلگت بلتستان میں نصیر الدین ہنزائی نے اسماعیلی تعلیمات سے منحرف ہو کر کچھ نئے عقائد کا پرچار جب شروع کیا تو حکومت پاکستان نے 2013 میں ان کی تنظیم پر پابندی لگا دی جس کے بعد انکے اعلیٰ عہدیدار اپنا زیاد ہ وقت امریکہ اور بھارت میں گزارنا شروع کیا۔ گلگت بلتستان میں سنی شعیہ تنازعات کو استعمال کر کے خظے کی ایجنسیاں اپنے مقاصد حاصل کرتی رہی ہیں لیکن اب چونکہ سی پیک کی شکل میں ایک عالمی منصوبہ اس خطے سے گزر رہا ہے اس لئے ان سنی شعیہ لڑائیوں کو ایجنسیوں نے خود لگام دے رکھا ہے۔ سنی شعیہ فسادات کی غیر موجودگی میں اسماعیلی  تنازعہ ایک اہم متبادل کے طور پر کام کر سکتا ہے لہذا عالمی طاقتوں نے ان منصوبے پر 2008 سے کام شروع کیا تھا( یا د رہے کہ سی پیک منصوبے پر ابتدائی بات چیت پاکستان اور چین کے مابین 2008 میں ہی ہوئی تھی )۔2013 میں جب نصیر الدین ہنزائی نے اس منصوبے کو پہلی دفعہ عملی طور پر سامنے لایا تو گلگت شہر میں اسماعیلی اداروں پر حملے ہوئے اور جلاو گراو کے واقعات بھی رو نما ہوئے اس کے بعد حکومت پاکستان نے خانہ حکمت نامی ان کی اس زیلی تنظیم پر پابندی لگا دی۔

کالعدم خانہ حکمت کے کام کرنے کا انداز بلکل فری میسن کی طرح ہے۔ اس تنظیم کے پیروکار کبھی بھی کسی غیر شخص کو اپنے محفلوں میں نہیں لے کے جاتے ہیں۔ ان کی عبادت کے مخصوص طریقے ہوتے ہیں اور ان کی تسبیح فری میسن کے ٹاپ کے رہنماوں کے نام لے کے ہوتی ہے۔ مثلاً ان کی تسبیح میں یا اوبامہ یا اوبامہ جیسے تسیحات شامل ہیں ۔ ان کے اہم عہدیدار اٹلی، انڈیا ، امریکہ سے سکائپ کے زریعے پاکستان میں موجود اپنے پیرو کاروں کو تعلیم دیتے ہیں ۔ ان کے پر اسرار افعال ، خفیہ کام عملی اور دیگر سرکموسٹانشل  ثبوت واضح طور پر ان کو ایلومیناتی  یا فری میسن کے شاخ ہونے کا ثبوت ہے۔